Thursday, March 26, 2015

بصیرت آن لائن کی پہلی سال گرہ پر

باسمہ تعالی

بصیرت آن لائن کی پہلی سال گرہ پر

مکرمی جناب مولانا غفران ساجد صاحب قاسمی ــ حفظکم اللہ ــ
                         چیف ایڈیٹر "بصیرت آن لائن"
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
امّید کہ جناب عالی بخیر ہوں گے!

آج کل لوگ ڈالرس اور ریال کی فکر میں، اپنے وطن سے دور، دوسرے ممالک میں خدمت کرکے عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ مگر یہ  آپ کا اخلاص ہی ہے کہ آپ نے ایک اچھی نوکری  سے مستعفی ہوکر، قوم و ملت کی خدمت کی فکر سے سرشار ہوکر، مکر و فریب اور دروغ گوئی و کذب بیانی کی دبیز چادر میں دبی ہوئی موجودہ صحافت کو اسلامی اسلوب میں پیش کرنے کے جذبے لیس ہوکر، "بصیرت "کےساتھ ذرائع ابلاغ کے کٹھن میدان میں قدم رکھ چکے ہیں۔ آپ کا یہ حوصلہ قابل صد مبارک باد ہے۔ ہم آپ کو تہہ دل سے مبارک باد پیش کرتے ہیں!

بصیرت کی پہلی سالگرہ کی مناسبت سے، میں آپ کو اور آپ کی ٹیم کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ تعالی اس سفر کو اخلاص اور صداقت کے ساتھ قائم و دائم رکھے! آپ جس مخلصانہ حوصلے کے ساتھ اس میدان میں اتڑیں ہیں، اللہ تعالی آپ کو اس میں کام یابی و کام رانی سے سرفراز فرمائے! آمین!

آج کے جمہوری دور میں، ذرائع ابلاغ (Media) کی بڑی اہمیت ہے۔ اس کے ذریعے بھی قوم و ملت کے اہم مسائل کو اٹھا کر، قوم کی ایک بڑی خدمت کی جاسکتی ہے۔ لارڈ میکالے کے بقول میڈیا اور ذرائع ابلاغ جمہوریت کاچوتھا ستون ہے۔ اگر جمہوریت کی بقا اور تحفظ مطلوب ہے؛ توحکومتِ وقت کو میڈیا کوپوری آزادی دینی ہوگی اور ذرائع ابلاغ سے منسلک افراد کو دیانت داری، ذمےداری، قربانی اور صداقت کے ساتھ سماج کے پیش آمدہ مسائل کو اجاگر کرنا ہوگا۔
اس پیڈ نیوز (Paid News) کے دور میں،"بصیرت آن لائن" نے جس  دیانت داری، ذمے داری اور صداقت کے ساتھ، قوم و ملت سے متعلق قومی اور بین الاقوامی مسائل کو اٹھاکر، آئینہ کی طرح صاف و شفاف انداز میں پیش کیا ہے؛  یہ  بصیرت کے چیف ایڈیٹرکی حق گوئی و بے باکی، حوصلہ و ہمت اور اخلاقی جرات کا مظہر ہے۔ اللہ تعالی اس بے باکی و حق گوئی کو تا دیر باقی رکھے! آمین!

یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سےانکار نہیں کیا جاسکتا کہ آج ذرائع ابلاغ سے متعلق ایک بڑا طبقہ، اپنے ذاتی مفاد اورغلط طریقے سے مال و زر کی حرص و ہوس میں، ایک حقیر اور معمولی رقم کی خاطر، اپنے ضمیر و ظرف تک  کی سوداگری سے باز نہیں آتے اور پوری قوم وملت کے مفاد کو بالائے طاق رکھ کر، شخصِ واحد یا فکرِ واحد کو پروان چڑھانے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ سے متعلق اگر کسی شخص کا مقصد حیات یہی ہے؛ تو ایسے شخص کو بے ایمان، خائن اور قوم و ملت فروش تو کہا جا سکتا ہے؛ لیکن صحافی اور جمہوریت کے چوتھے ستون کا نمائندہ  ہرگز نہیں کہا جاسکتا۔ کسی میڈیا ہاؤس(Media House)  کی ذمےداری سنبھالنے اور صحافی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ بغیر کسی دباؤ میں آئے، اپنے اصول کی پاسداری  کرتے ہوئے، ذمے داری کے ساتھ، حقائق کو آشکارا کرکے اپنے اخلاقی جرات کا فريضہ انجام دیں۔

جہاں تک "بصیرت آن لائن" کی کام یابی و کامرانی کی بات ہے؛ تو اس حوالے سے میرے زاویۂ نظر سے دیکھا جائے؛ تو ایک سال کی قلیل ترین مدت میں، اس نیوز پورٹل نے جس طرح کی خبریں، مضامین و مقالات، فیچرس اور ادبی شہہ پارے شائع کیے ہیں؛ یہ کام یابی کی علامت ہے۔ بسا اوقات راقم الحروف(جو بصیرت کے ابتدائی قاریوں میں سے ہے) نے ایسا بھی محسوس کیا کہ کچھ اہم اور قابل اعتنا خبر اور مضامین و مقالات کو بہت سے اخبارات سے پہلے "بصیرت آن لائن" نے شائع کیا، پھر بعد میں یہ خبراور مضامین دوسرے اخبارات میں شائع ہوئے۔ لیکن یہ بات ہمیشہ ذہن میں رہنی چاہیے کہ بصیرت کے حوالے سے جو کچھ ہوسکا ہے، اسے کافی نہ سمجھا جائے؛ بل کہ بہتر سے مزید بہتر کی تلاش و جستجو کی جائے، یہ اصل کام یابی ہے۔

ایک بار پھر آپ کو اور آپ کی ٹیم کو، بصیرت کی کام یابی اور ایک سال مکمل ہونے پر، دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں! ہاں، ایک وہ نام جسے اگر میں اس تحریر میں ذکر نہ کروں؛ تو شاید یہ انصاف کا قتل ہوگا، وہ ہے "بصیرت آن لائن " کے ایڈیٹر اور "خبر دَر خبر" کے کالم نگار عزیزی شمس تبریز قاسمی کہ وہ "بصیرت آن لائن" کے ابتدائی ایام سے ہی، بغیر کسی تعب  و تھکن محسوس کیے، کسی اہم خبرپر تلخ و شیریں، مگر مناسب اور عمدہ الفاظ کے پیرائے میں، ہمیشہ اپنی حاضری سے، مجھ جیسے لوگوں کو غذا فراہم کرتے رہے ہیں؛ لہذا میں ان کو بھی مبارک باد پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ "اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ!"

گو کہ یہ تہنیت نامہ ایک داستانِ طویل کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے؛ لیکن ایک مشورہ جو شروع سے ہی ذہن و دماغ کے دریچے میں بار بار آتارہا ہے اور شاید "بصیرت آن لائن" کے چیف ایڈیٹر سے، میں نے ایک آدھ بار کہا بھی ہے؛ دل چاہ رہا ہے کہ پھر سے اسے تازہ کردوں۔ مگر اس مشورہ سے پہلے، ایک ایسی حقیقت جس سے بہت سے لوگ نا واقف ہیں، اس کا بھی تحریر کردینا مناسب سمجھتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ ایک غیر جانب دار(Neutral) "ہفت روزہ یا روزنامہ اردو اخبار"، وہ بھی کسی کارپوریٹ (Corporate) وسائل کے بغیر، مطبوعہ شکل میں نکالنا، ایک بہت بڑی جاں فشانی اور ہفت خوانِ رستم سے زیادہ مشکل کام ہے۔ مگر اس کے باوجود، میرا مشورہ ہے کہ آپ کوشش کریں اور "بصیرت" کو مفید ترین بنانے کےلیے آن لائن کے ساتھ ساتھ مطبوعہ شکل میں بھی "ہفت روزہ" بہ طور تجربہ کے شائع کریں اور اس میں کام یابی - اوران شاء اللہ کام یابی ضرور ملے گی- کے بعد "روزنامہ" کی شکل میں شائع  کریں۔

بس انھیں باتوں پر، بصیرت کے پلیٹ فارم سے آپ کی خدمت پر، شکریہ اور جزاکم اللہ احسن الجزاء کے کلمات کے ساتھ، میں اپنی تحریر کو ختم کرتا ہوں اور درخواست کرتا ہوں کہ آپ اپنی دعاءِ نیم شبی میں اس حقیر کو ضرور یاد رکھیں!
والسلام مع الکرام!
از: خور شید عالم داؤد قاسمی
ٹیچر: مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ
بہ تاریخ: 18/ جنوری 2015


(مراسلہ نگار مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامیبا، افریقہ کے استاذ ہیں۔ ان سے qasmikhursheed@yahoo.co.in   پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)

No comments: