Monday, December 2, 2019

چندہ کرنا بھی دین کا کام ہے


چندہ  کرنا بھی دین کا کام ہے
 
از: خورشید عالم داؤد قاسمی
 
 
        اگر ذاتِ باری تعالی کسی انسان کو دولت و ثروت جیسی عظیم نعمت سے مالا مال کرتا ہے؛  تو اسے یہ ہر گز نہیں سمجھنا چاہیے کہ یہ دولت و ثروت اسی کے لیے مخصوص کردی گئی ہے اور اس میں کسی بھی بندۂ خدا کا کوئی حق و حصہ نہیں ہے؛ بل کہ اسے یہ سمجھنا چاہیے کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے جو ایک عظیم نعمت دی ہے،  اس میں اس کے ساتھ ساتھ، اللہ کے دوسرے بندوں کا بھی حق اور حصہ ہے۔  پھر اس میں جن جن لوگوں کا حق ہے،  اس تک پہنچانے کی سعی و کوشش اور جد و جہد کرے۔ سرمایہ داروں کو مال کے کتنے حصے  دوسروں پر خرچ کرنا ہے، اسلام نے بہت ہی اچھے طریقے سے متعین کردیا ۔ کبھی تو زکاۃ کی شکل میں اس مال میں دوسروں کے حق کو متعین کیا ہے ، تو کبھی صدقہ اور فطرہ کی شکل میں اورپھر کبھی ہدایا اور عطیات کی صورت بتلاکر ، لوگوں کا حق متعین کیا ہے؛ اس لیے ہر دولت مند کو چاہیے کہ اس کے مال میں جس کا جتنا حق ہو اسے پہونچائے ، تب جاکر اس کے مال میں برکت ہوگی اور دیر پا ہوگا؛ ورنہ تو جتنی سرعت اور تیزی سے وہ مال آیا ہے، اتنی ہی سرعت اور تیزی سے چلا جائے گا ۔عربی کا یہ جملہ کتنا ہی خوب صورت، جامع  اورمعنی خیز ہے: "المال غاد و رائح"   کہ مال صبح آنے والا اور شام کو جانے والاہے ۔ 
 
        آج ایمان کی کمزوری کہیے یا پھر مال و دولت کو جمع کرنے کی حرص و لالچ کہ اس وجہ سے بہت سے صاحب ثروت اس فريضہ کی ادائیگی میں کوتاہی در کوتاہی اور سستی در سستی برتتے ہیں ؛ بل کہ کبھی کبھار وہ زکاۃ و صدقات کی رقم کے وصولنے والوں  کو جو کچھ کہہ جاتے ہیں، اسے برداشت کرنا ،ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی ۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا کرنا عقل و خرد سے دور کی بات ہے ۔ چندہ کرنے والوں اور زکاۃ و صدقات کی رقم  وصول کرنے والوں کے بارے میں بڑی فضیلت احادیث مبارکہ میں وارد ہوئی ہے ۔ ہم ذیل کے سطروں میں، عصر حاضر میں چندہ کرنے والے ، چندہ دینے والے اور موجودہ صورت حال میں اس میں جو کچھ خامیاں در آئیں ہیں، اس حوالے سے کچھ معروضات اس توقع سے پیش کررہے ہیں کہ اس سلسلہ میں جن سے بھی جو کوتاہیاں ہو رہی ہیں،  اس سے بچنے کی حتی المقدور کوشش کریں۔
 
اللہ کے نبی محمدـ صلی اللہ علیہ وسلم ـ نے چندہ کنند گان کے حوالے سے جو ارشاد فرما یا ہے ایک روایت یہ ہے:
عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يَقُولُ: "الْعَامِلُ عَلَى الصَّدَقَةِ بِالْحَقِّ كَالْغَازِي فِي سَبِيلِ اللَّهِ، حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى بَيْتِهِ." (ابو داؤد، حدیث نمبر: 2936، ترمذی شریف، حدیث نمبر: 645، ابن ماجہ، حدیث نمبر: 1809) ترجمہ: حضرت رافع بن خدیج –رضی اللہ عنہ- روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول اللہ –صلی اللہ علیہ وسلم - نے ارشاد فرمایا: "سچائی کے ساتھ صدقہ (زکاۃ)وصولنے والا، اللہ کے راستے میں لڑنے والے کی طرح ہے، تاآں کہ وہ اپنے گھر لوٹ آئے۔"
 
اس حدیث شریف میں ان لوگوں کے لیے بشارت و فضیلت اور سعادت و نیک بختی کی باتیں ہیں ،جو پورے اخلاص و للہیت  کے ساتھ، صاحب ثروت کے پاس ،زکاۃ و صدقات اور فطرہ و عطیات کی رقم وصولنے کے لیے جاتے ہیں اور بغیر کسی کمی کوتاہی اور خیانت و  دھوکہ دہی کہ وصول شدہ مال کو "بیت المال" یا اس کے مساوی جو جگہ ہو، وہاں یا پھر بذاتِ خود اس رقم کو، مستحقین تک پہونچانے کی سعادت حاصل کرتے ہیں ۔ مذکورہ حدیث شریف میں جوفضیلت و بشارت آئی ہے ،یہ ہے کہ زکاۃ وصولنے والا،  جب تک زکاۃ وصولنے کے لیے گھر سے باہر ہے اور وہ اپنے گھر نہیں پہونچا ہے؛ تو وہ اس سفر میں اتنا ہی ثواب حاصل کررہا ہے، جتنا اللہ کی رضاء و خوشنودی حاصل کرنے کے لیے مجاہد فی سبیل اللہ ، اللہ کے راستے کا مجاہد اور جہاد کی نیت سے گھر چھوڑ کر ،میدان جہاد کا رخ کرنے والے کا ہے ۔در حقیقت یہ کام بہت ہی اونچا اور ثواب والاکام ہے۔ جب چندہ وصولنے والے کا اللہ کے رسولـ صلی اللہ علیہ وسلم ـ کے فرمان کے مطابق اتنا عظیم مرتبہ ہے کہ وہ "مجاہد فی سبیل اللہ" کے برابر ہے؛  تو پھر اس کی حیثیت اور مرتبہ کا کیا پوچھنا!
 
اس حدیث شریف کی روشنی میں کیے گئے کلام سے یہ بات بالکل واضح اور عیاں ہوجاتی ہے کہ چندہ کا کام کوئی گھٹیا ،بد ترین اور بُرا نہیں ہے ۔ یہ کام کسی ناکارہ اور کا ہل کا کام نہیں ہے اور اس کام کو کوئی ایرے غیرے بھی انجام نہیں دے سکتا ہے؛ بل کہ اس کام کا کرنے والاجب مجاہد کی طرح ہے؛  تو اسی طرح محصلین اور چندہ وصولنے والے ایسے ہوں جو مجاہد ین جیسا دل و جگر رکھتے ہوں اور عزم و حوصلہ کا پہاڑ ہو ۔مگر  افسوس، آج کے کچھ چندہ دہندہ ، چندہ وصول کنندہ اور عوام و خواص پر ہے کہ یہ کام بہت برا ہوچکا ہے۔ عصر حاضر کے ماحول نے اس کام کو اتنا پراگندہ اور پلید کردیا کہ اب کوئی بھی شریف الطبع، با صلاحیت اور قابل آدمی زکاۃ وصولنے کا کام کرنا نہیں چاہتا ہے؛ بل کہ اس کام کو اپنے دامن پر ایک داغ اور دھبہ تصور کرتا ہے۔
 
آج کل وہ ادارہ و تنظیم اور مدارس و مکاتب : جہاں زکاۃ و صدقات کی رقم وصول کرکے جمع کی جاتی ہے اور اس رقم کو مستحقین تک پہنچایا جاتا ہے، ان  کے ذمے داران بھی آج کی صورت حال سے بیجااور لا یعنی طور متاثر ہوکر ، چندہ وصولنے کی ذمے داری ایسے لوگوں کے دوش پر ڈالنا چاہتے ہیں،  جوگرچہ خلوص و للہیت سے خالی ہو؛ مگر موٹا تازہ  ہو، باتونی  ہو اور مکاری و عیاری کے فن میں دسترس رکھتا ہو، یا اسی طرح کے جو بھی اوصاف و کمالات، کسی بھی شخص میں پائے جاتے ہوں، اسے چندہ وصولنے کے لیے موزوں ترین شخصیت گردانتے  ہیں ۔
 
حقیقت یہ ہے کہ زکاۃ و خیرات اور صدقات و عطیات کے وصول کرنے کا کام،  اتنا اہم اور ذمے دارانہ ہے کہ اس کام کے لیے کسی دیانت دار، صبر و قناعت سے بھر پور، سنجیدہ و متین ، لائق و فائق اور حرص و لالچ سے پاک اور بری آدمی کو منتخب کرنا چاہیے ؛ کیوں کہ اگر اس طرح کی رقم وصول کرنے والا،  ان اوصاف کا حامل نہ ہوگا ، تو زکاۃ کی رقم کو  وہ صحیح طریقے سے پہونچا نہیں سکتا ہے ، اس میں خیانت کرے گا، بد نظمی پھیلا ئے گا اوربات بات پر چندہ دہندہ سے جھگڑا لڑائی کرے گااور نہ جانے کن کن چیزوں کا ان سے صدور ہو گااور ایک اچھا کام خراب ہوجائے گا؛ بل کہ یہ کام انھیں وجوہ سے بدنما داغ سا ہوگیا ہے۔ اس کا پورا اندازہ،  آج کے معاشرہ کو دیکھ کر کیا جاسکتا ہے کہ چندہ دہندہ ، چندہ وصول کنندہ کو کس  طرح گری اور حقیر نظر سے دیکھتے ہیں ۔
       
یہاں یہ سوالات ہیں کہ آج کسی بھی طرح کا چندہ وصول کرنے میں اتنی پریشانی و مشقت کیوں ہے؟  چندہ دہندہ، محصلین و عاملین کو دیکھ کر اپنا چہرہ کیوں بگاڑ لیتے ہیں؟ محلصین و عاملین کے آتے ہی کھلا دروازہ، بند کیوں کردیا جاتا ہے؟  اگر کوئی شخص چندہ دیتے بھی ہیں؛  تو  محصلین کو بار بار اپنے دولت خانہ کا طواف کیوں کرواتے ہیں؟ چندہ دینے والے بار بارمحصلین کو اپنے دروازے پر بلا کر،  واپس کیوں لوٹا دیتے ہیں ؟  ان کی مختلف وجوہات ہیں جو ذیل کی سطروں میں عرض ہے ۔
 
اس سلسلے میں دو اہم غلطیاں ہوئی ہیں: پہلی غلطی یہ کہ آج کل جن کو بھی کوئی کام نہیں ملتا ہے یا نیت اچھی نہیں ہوتی ہے؛  تو وہ فورا مدرسہ و مکتب کرایے کے مکان میں ہی سہی، قائم کرکے بانی و مہتمم اوربلا اجرت خادم و سفیر بن کر،  یتیم و غریب طلبہ کے نام پر،  چندہ لوٹتے ہیں یا پھر کسی شہر میں عاریت کے مکان میں سہی، ایک کمرہ پر مشتمل قومی سطح کی خیراتی تنظیم (Charitable Organisation) قائم کرکے، خود صدراور قوم و ملت کے قائدو زعیم بن کر غلط سلط طریقے سے فقراء ومساکین ، یتیم و بیوہ  کی مدد کے عنوان سے،  چندہ کا دھندہ شروع کردیتے ہیں ۔ اب چاہے وہ مال، مستحقین تک پہنچ پائے یا اپنی ڈھیر پھٹ کی جنہم کے پرکرنے میں صرف ہو، اس کی کوئی پرواہ نہیں ؛ بل کہ کچھ لوگ اس رقم کو وصول کرکے اپنی ضروریات کی تکمیل کرنا،  اسے اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں ۔
       
دوسری بڑی غلطی یہ ہے کہ کچھ غلط طریقے سے چندہ کرنے والے سفراء کی وجہ سے صاحب دولت و ثروت حضرات،  ان سفراء کو بھی گری نگاہ اور حقیر نظروں سے دیکھنے لگے ہیں، جو در حقیقت ان حضرات سے،  زکاۃ و خیرات کی رقم وصول کر کے، مستحقین تک پہنچانے کی سعی بلیغ کرتے ہیں اور من وجہہ ٍ صاحب  مال پر احسان و کرم فرمائی کرکے شکریہ اور احسان کے حق دار بنتے ہیں ۔ایسی غلطی سے کلی طور پر اجتناب کیا جانا چاہیے ؛ بل کہ ان غلطیوں کا فوری ازالہ وقت کی اہم ضرورت بن گئی ہے ؛ ورنہ دین کا کام بہت مشکل اور دشوار ہو جائے گا ۔
 
البتہ وقت اور حالات کے تناظر میں یہ درست ہے کہ چندہ دہندگان،  چندہ وصول کنندگان کو گری نگاہ اور حقیر نظروں سے دیکھنے کے بجائے ،چندہ وصول کنندہ اور ادارے کی چھان بین کریں اور پورے طور پر اطمینان ہونے کے بعد چندہ دیں ۔ جس افراد پر انہیں اعتمادو یقین ہو، ان کی تحریری طور پر یا پھر کسی اور واسطے سے تصدیق ہوجانے کے بعد ہی چندہ دیں ۔ اگر ان کے سامنے حقیقت واضح اور عیاں نہ ہو سکے؛  تو سنجیدہ لب و لہجہ میں، میٹھی بول بول کر چندہ کنندگان کو واپس کردیں یا پھر کھلے لفظوں میں یہ کہہ دیں کہ ہم آپ کو چندہ دینے سے قاصر ہیں ۔ ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہیے کہ کسی بھی محصّل یا بیگ والے اور کرتا پائجامہ میں ملبوس شخص کو دیکھتے ہی دھتکار کر بھگانا شروع کردیں یاگھر بار، مکان و دوکان اوردولت خانےاور  کارخانے کے دروازے بند کردیں اور انھیں حقیر نظر سے دیکھیں یا اگر چندہ دے بھی دیا؛  تو محصلین پر احسان جتائیں اور دھونس جمائیں۔
 
یہ بھی بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ جن شخصیات کی تصدیق و تائید پر، صاحب دولت و ثروت اعتماد و یقین کرکے چندہ دیتے ہیں، انہیں چاہیے کہ جو بھی شخص، جس ادارہ  کی بھی تصدیق کے لیے ان کے پاس تصدیق آئے ،اس ادارے کے سلسلے میں اگر پہلے سے علم ہو؛ تو حقیقت ِ حال کی تصدیق کردیں اور اگر ناواقف ہوں؛  تو خوب اچھی طرح سے معلومات حاصل کرکے یا خود معائنہ کرکے حقیقی صورت حال کی تصدیق کردیں ۔ کبھی کبھی یہ دیکھا جاتا ہے کہ تصدیق کرنے والے حضرات کسی ادارہ کی پوری صورتِ حال سے باخبر ہونے کے بعد بھی تصدیق و تائید نہیں کرتے اور کچھ لوگ بغیر حقیقت اور اصلیت کے جانے ہوئے بھی تصدیق کردیتے ہیں ۔ ہر دو عمل دیانت داری کے خلاف ہے ۔ بسا اوقات تصدیق کنندہ ، تصدیق کرنے میں تعلق اور قرابت داری  کا  بھی خیال کرکے، تصدیق لینے والوں کو واپس کرنے میں جھجھک محسوس کرتا ہے اور ان کی مرضی کے مطابق بڑھا چڑھا کر تصدیق نامہ تحریر کردیتا ہے ۔  یہ بھی سراسر کذب اور جھوٹ ہے، ایسا کرنے والا عنداللہ ماخوذ ہوگا ؛ لہذا جو حقیقت ہے اس کی تصدیق کی جانی چاہیے۔ غلط اور ناجائز طریقے سے چندہ کرنے والوں کو لگام کسنے کی یہ بھی ایک اچھی شکل ہوسکتی ہے کہ پوری صورت حال سے واقفیت کے بعد ، تصدیق  نامہ دینے میں  حقیقت حال کا پورا خیال کیا جائے ۔
 
خیر جو شخص بھی چندہ کرنے جاتے ہیں، ان کو ہمیشہ یہ خیال رکھنا چاہیے کہ وہ یہ کام اللہ تعالی کی رضا و خوشنودی کے حصول کے لیے چندہ  کرنے جارہے ہیں۔ اسی طرح، جو لوگ اللہ کے راستے میں زکاۃ و خیرات دیتے ہیں، ان کو بھی یہ خیال کرنا چاہیے کہ یہ محصلین ان کے خیرخواہ ہیں، جو ان کے  مکان و دوکان اور کمپنیوں  پر جاکر، ان کا کام انجام دے رہے؛ لہذا ان کا احسان ماننا چاہیے۔ اسی طرح صاحب مال و دولت کو یہ بھی نظر انداز نہیں کرنا  چاہیے کہ جو کچھ بھی وہ دے رہے ہیں، وہ اللہ کے حکم کی تعمیل میں کررہے ہیں اور اس کا بدلہ اور  ثواب ، اللہ تعالی ان کو قیامت کے دن دیں گے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: "الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ لَا يُتْبِعُونَ مَا أَنْفَقُوا مَنًّا وَلَا أَذًى لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ." (سورہ بقرہ، آیت: 262) ترجمہ: "جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، پھر خرچ کرنے کے بعد نہ تو احسان جتلاتے ہیں اور نہ آزار پہنچاتے ہیں، ان لوگوں کو ان کا ثواب ملے گا، ان کے پروردگار کے پاس اور نہ ان پر کوئی خطرہ ہوگااور نہ یہ مغموم ہوں گے ۔" ایک دوسری جگہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: "وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَلِأَنْفُسِكُمْ وَمَا تُنْفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ." (سورہ بقرہ، آیت: 272) ترجمہ: "اور جو کچھ تم خرچ کرتے ہو اپنے فائدہ کی غرض سے کرتے ہو، اور تم اور کسی غرض سے خرچ نہیں کرتے، بجز رضا جوئی ذات پاک حق تعالی کے اور جو کچھ مال خرچ کرتے ہو، یہ سب پورا پورا تم کو مل جاوے گا اور تمہارے لیے اس میں ذرا کمی نہ کی جاوے گی۔"
 

No comments: