Saturday, December 7, 2019

مصر: عرب بہاریہ سے حافظ ڈاکٹر محمد مرسی کی وفات تک


مصر: عرب بہاریہ سے حافظ ڈاکٹر محمد مرسی کی وفات تک

 

تحریر : خورشید عالم داؤد قاسمی٭

 

مصر افریقی بر اعظم کا ایک عظیم ملک ہے، جو اپنی قدیم روایات اور "جامعہ ازہر"  جیسی عظیم دینی  درس گاہ کی وجہہ سے پوری دینا میں مشہور ہے۔ یہ ملک عام طور پر عرب کا قلب کہا جاتا ہے اور اس میں کسی طرح کا کوئی مبالغہ نہیں ہے۔ مصر میں ایک لمبی مدت تک شاہی حکومت رہی۔26/ جولائی 1952 کو"آر،سی،سی"(Revolution Command Council) کے قائد،کمانڈر اِن چیف محمد نجیب یوسف نے شاہ فاروق سے مطالبہ کیا کہ وہ شاہزادہ احمد فواد کو بادشاہت سونپ دیں اور وہ خود جلاوطن ہوجائیں؛ چناں چہ ایسا ہی ہوا کہ شاہ فاروق نے شاہزادہ احمد فواد کو بادشاہ نامزد کرکے، اپنی زندگی کے بقیہ ایام اٹلی میں جلاوطنی میں گزار دی۔  پھر ایک سال بھی مکمل نہ ہونے پایا تھا کہ 18/ جون 1953 کومحمد نجیب نے،شاہ احمد فواد کو معزول کرکے " ریپبلک آف مصر"  کا اعلان کردیا اور محمد نجیب بحیثیت صدر اور وزیرِ اعظم مصر کے سیاہ وسفید کے مالک بن گئے۔ یہاں سے  فوجی ڈکٹیٹروں کا دورشروع ہوا  اور 11/فروری 2011  تک فوجیوں کی ڈکٹیٹرشپ میں عوام پستے رہے۔ سن 2011کے شروع میں عرب ممالک میں جو "عرب بہاریہ" آیا، وہ مصر میں بھی پہنچااور حسنی مبارک کی آمریت سے تنگ آکر، مصری عوام "تحریر اسکوائر" پر جمع ہوگئے اور 30/سال تک ظالمانہ اور جابرانہ طور پرمصر کے سیاہ و سفید کا مالک رہنے والا ڈکٹیٹر نے، حکومت کی باگ ڈور فوجی جنرل محمد حسین طنطاوی کے حوالے کرکے، اپنے استعفی کا اعلان کروا دیا اور خود حکومت سے الگ تھلگ ہوگیا؛ کیوں کہ اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔

 

انقلاب کے بعد ،  تقریبا ڈیڑھ سال تک جنرل محمد حسین طنطاوی ملک کے قائد کی حیثیت سے رہے۔ پھر انتخاب کا وقت آیا اور انتخاب میں "دی فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی"کے امیدوار، حافظ ڈاکٹر محمد مرسی نے اکاون فی صد ووٹ حاصل کرکے، حسنی مبارک کے زیر اقتدار رہے وزیرِاعظم، احمدمحمد شفیق کو شکشت دے کر جیت حاصل کی۔  پھرڈاکٹر  محمد مرسی 30/جون 2012  کو حلف برداری کی بعد ، مصر کے پہلے منتخب جمہوری صدر بن گئے۔ محمد مرسی نے صدر منتخب ہونے کے کچھ ہی دنوں بعد، فوجی جنرل محمد حسین طنطاوی کی جگہ عبدالفتاح السیسی کو فوج کا جنرل اور وزیر دفاع بنا یا۔ عوامی ریفرنڈم کے ذریعہ، عوام کی خواہش کے مطابق، عوام  کو پہلا جمہوری دستور دیا۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا۔ توانائی، زراعت اور صنعت کو ترقی دینے کے لیے منصوبے تیار کیے۔ مصر کی طرف سے غزہ پٹی (فلسطین )کی ناکہ بندی ختم کروائی اور غزہ پٹی کے باشندوں کو سکون کی سانس لینے کا موقع فراہم کیا۔  ڈاکٹر محمد مرسی نے صدر بننے کے بعد، روس، ترکی، ہندوستان اور پاکستان وغیرہ کا دورہ کیا۔ ان کی کوشش اور خواہش تھی کہ مصر ایک خود کفیل ملک بن جائے اور دوسرے ممالک کا  محتاج بن کر نہ رہے۔

 

لیکن ڈاکٹر مرسی یہ کی کوشش، کچھ مفاد پرست لوگوں کو نہیں بھائی اوروہ  دشمنوں کا آلۂ کار بن کر ، ڈاکٹر محمد مرسی کے خلاف، ایک "تمرّد"(Rebel) نامی تنظیم کے بینر تلے، 30/جون 2013 کو میدان میں آگئے اورعلم بغاوت بلند کردیا ۔ میدان میں آنے والوں میں اکثر دوسرے مذاہب اور کچھ ملحد قسم کے لوگ تھے۔ کچھ مسلمانوں نے بھی اپنے فروعی اختلاف کی بنیاد پر، ڈاکٹرمحمد  مرسی کے خلاف میدان میں ان لوگوں کا ساتھ دینے کے لیے صف بستہ کھڑے ہو گئے اور ان کے استعفی کا مطالبہ شروع کردیا۔ مرسی مخالف یہ مظاہرہ، محمد البرادعی کی نگرانی میں ، چند دنوں تک   چلتا رہا۔ ڈاکٹر محمد مرسی کے بنائے ہوئے اس وقت کے وزیرِ دفاع اور فوجی جنرل عبد الفتاح السیسی کو ایک موقع ہاتھ لگا اور اس نے ایک جمہوری طور پر  منتخب صدر کو  48/ گھنٹے میں ان  مظاہرین سے صلح وصفائی کرنے کا حکم جاری کیا اور نہ کرنے کی صورت میں معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کی دھمکی دیدی۔ پھر 48/ گھنٹے بعد فوجی جنرل نے ،3/جولائی  2013 کو ڈاکٹر محمد مرسی کو گرفتار کرکے کسی نا معلوم جگہ پر قید کردیا اور سابق دستور کی منسوخی کے ساتھ ساتھ ایک کٹھ پتلی ،عبوری حکومت کا اعلان کردیا۔

 

اس عبوری حکومت کا صدر مصر کے چیف جسٹس عدلی منصور کو بناگیاہے؛ جب کہ نائب صدر محمد البرادعی کو بنا گیا ہے ، جو ایک لبرل مسلمان اور مرسی مخالف مظاہرہ کی قیادت کر رہا تھا۔  پھر 16/ جولائی کو وزیرِ اعظم  کا عہدہ حازم الببلاوی کودلایا گیا ہے ؛ جب کہ نائب وزیرِ اعظم کے منصب پر عبد الفتاح السیسی خود فائز ہوگیا۔ فوجی جنرل نے طاقت کے بل پر ایک جمہوری طور پر  منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر، ایک غیر قانونی، غیر جمہوری اورخائن حکومت تشکیل دیدی اور اقتدار پر قابض ہوگیا۔

 

اس غیر جمہوری حکومت کے وجود میں آتے ہی،اس کے نائب صدر محمد البرادعی نے اسرائیل کا خفیہ دورہ کیا۔ پورے مصری عوام تجسس میں پڑگئے کہ آخر اتنی جلدی یہ دورہ کیوں ہوا، اس میں کیا راز ہے؟ دوسری طرف الاخوان المسلمون کے اراکین کو گرفتار کیا جا نے لگا۔ مصر کی طرف سے غزہ پٹی ( فلسطین) کی ناکہ بندی جس طرح حسنی مبارک کے دور میں تھی، اسی طرح پھر سے کردی گئی۔ اس کے بعد، غزہ پٹی کے شہری، پھر مصائب و آلام میں گھر گئے۔ مسجد میں نماز ادا کررہے لوگوں  پر پولیس فائرنگ کرنے لگی۔ وزیرِ داخلہ نے یہ اعلان کر دیا کہ حسنی مبارک کے دور کے جن پولیس افسران کو انقلاب کے بعد معزول کیا گیا تھا، ان کو پھر سے بحال کیا جائے گا۔ مصر تو مصر، دوسرے ممالک کے انصاف پسند لوگوں کو  بھی اس غیر جمہوری حکومت کے ان اقدامات  پر بڑا تعجب ہوا۔ یہ لوگوں کو پتہ لگانا مشکل تھا کہ یہ کون سی چال چلی جارہی ہے!

 

ڈاکٹر محمد مرسی کی حکومت کے تختہ پلٹنے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پڑوسی ممالک اور عالم عرب سراپا احتجاج بن جاتا اور باغیوں کی حکومت کو  منظور نہیں کرتا؛ لیکن ایسا نہیں ہوا ؛ بل کہ اس کے برخلاف پڑوس عرب ممالک نے نئی حکومت کو مبارکبادی کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر مالی تعاون بھی کیا۔سیدھے سادھے عام شہری، ان عرب ممالک کے حکمرانوں کی چال کو سمجھنے سے قاصر تھے کہ آخر اِن حکمرانوں کا منشاء کیا ہے؟ وہ ایک اسلام پسند حکمراں کے خلاف کیوں کھڑے ہو رہے ہیں؟  وہ اسلام اور مسلمانوں کی بھلائی کے لیے کیا کررہے ہیں؟

 

ڈاکٹر محمد مرسی کی حکومت کے سقوط کے بعد، پورا مصر سراپا احتجاج بن گیا۔ قاہرہ ، اسکندریہ اور دوسرے بڑے شہروں کی شاہراہیں اور میدان  کو "الاخوان المسلمون" کے ممبران اور دوسرے عوام نے پر امن مظاہرین کی شکل میں بھر دیا ہے اور اپنے مطالبات کو منوانے کی کوشش میں لگ گئے۔  ان مظاہرین کا سب سے بڑا مجمع قاہرہ کے "میدان رابعۃ العدویۃ" میں تھا۔ سب کے سب مظاہرین عبد الفتاح السیسی کو غدار اور خائن سے تعبیر کر رہے تھے۔ ان پر امن مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ ملک میں فوج کے زیر اثر بنائی گئی غیر دستوری حکومت کو فورا ختم کرکے، ڈاکٹر محمد مرسی کو ان کے عہدے پر واپس لاجائے؛ کیوں کہ وہ عوام کے منتخب صدر ہیں اور عوام نے ان کو ایک معینہ مدت تک کے لیے ملک  پر حکومت کرنے کو مینڈیٹ(Mandate)  دیا ہے۔ فوج کے ذریعے اس حکومت میں کسی طرح کی مداخلت  خیانت اور غداری کے مترادف ہے۔

 

وہ پر امن مظاہرین جو ملک کے طول وعرض میں اور خاص طور پر میدان "رابعہ العدویہ" میں ڈاکٹر محمد مرسی کی موافقت اور فوجی جنرل کی مخالفت میں، کیمپ لگا کر مظاہرہ کر رہے تھے اور اپنے گھر واپس جانے کو تیار نہیں تھے، پہلے ان کو زبردستی ان کے گھر بھیجنے کی کوشش کی گئی۔ جب وہ اس میں کام یاب نہیں ہوئے؛ توانھیں ڈرانا دھمکانا شروع کیا اور ان کو دہشت گرد اور ملک مخالف عناصر سے تعبیر کیا جا نے لگا۔  جب کسی طرح کامیابی نہیں ملی؛ تو پھر 14/اگست 2013 کا وہ سیاہ دن بھی آیا، جس دن  سیسی کی فوج نے ان پر امن مظاہرین پر گولی چلائی، بلڈوزر چڑھائے اور ایر فورس نے فضائی  حملے شروع کردیے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں امن پسند مظاہرین کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ان شہیدوںمیں بچے، عورت اور مرد سب شامل تھے۔ پھر الاخوان المسلمون کے اراکین کی گرفتاری کا سلسلہ شروع ہوا اور چند دنوں میں اخوان کے اکثر چوٹی کے رہنماؤں اور کارکنان کو قید وبند کرکے، مقدمے شروع ہوئے۔ جب مقدمہ شروع ہوا؛ تو ان پر امن مظاہرین کے خلاف قتل، اقدام قتل،سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے اور پر تشدد مظاہرے  جیسے جرم ان کے خلاف ثابت کیے گئے۔ پھر ان قیدیوں کے خلاف موت کی سزا کے علاوہ جج صاحبان کو شاید کوئی سزا ہی نہیں ملی؛ چناں چہ 22/نومبر 2016 کو اخوان کے 188 اراکین کو سزائے موت سنائی گئی، 8 /ستمبر 2018 کو بیک وقت 75 /افراد کو سزائے موت سنائی گئی اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔

 

الاخوان المسلمون کے دوسرے اہم اراکین کے ساتھ ساتھ، ڈاکٹر محمد مرسی کے خلاف بھی مقدمہ شروع ہوا۔ مقدمہ کیا تھا؛ بل کہ ایک منصوبہ بند طریقے سے اراکین اخوان اور ڈاکٹر محمد مرسی کو پھنسانے اور مجرم ثابت کرنے کا ڈرامہ تھا، جو قاہرہ کی عدالت میں،اسٹیج کیا گیا۔ ڈاکٹر محمد مرسی پر بہت سے سنگین الزامات لگائے گئے۔ ان پر یہ الزام لگایا گیا کہ انھوں نے اخوانیوں کو قتل وغارت گری پر اکسایا، دہشت گرد تنظیموں کو تعادن فراہم کیا، ملک کے خلاف جاسوسی کی اور اپنے ملک کے دفاعی راز کو افشا کیا۔ سب کے سب الزامات عدالت میں ثابت بھی ہوگئے اور ایک حافظ قرآن، اعلی تعلیم یافتہ، ایک یونیورسیٹی کا سابق پروفیسر، عوام کا منتخب صدر، عدالت میں آکر جاسوس، غدار، دہشت گردوں کا معاون اور نہ جانے کیا کیا ثابت ہوگیا۔ پھر سزا سنانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ مختلف مقدمات کے تحت ان کو موت کی سزا، عمر قید کی سزا اور بیس سال قید کی سزا وغیرہ  سنائی گئیں۔

 

یہ مقدمے کا ڈرامہ تقریبا چھ سالوں سے چل رہا تھا۔ اس طویل دورانیہ میں ڈاکٹر محمد مرسی کو قید تنہائی میں رکھا گیا۔ ان کو جسمانی وذہنی طور پر ٹارچر کیا گیا۔ اس طویل مدت میں، انھیں اہل خانہ سے صرف تین بار ملنے دیا گیا۔  اس مدت میں، وہ مختلف بیماریوں سے دو چار ہوئے؛ مگر ان کو ادویات مہیا نہیں کی گئیں، ان کے علاج ومعالجہ کا کوئی خیال نہیں رکھا گيا اور نہ ان کو اپنے وکیل سے ملنے نہیں دیا جاتا تھا۔ یہی سب نہیں؛ بل کہ ان کو قرآن کریم بھی تلاوت کے لیے فراہم نہیں کیا گیا۔  ابھی 17/جون 2019 کو، وہ  "فلسطین کی سیاسی جماعت حماس کے ساتھ جاسوسی" کے حوالے سے ایک مقدمہ میں پیشی کے لیے عدالت میں حاضر تھے۔ مقدمہ کی کاروائی شروع ہوئی اور انھوں نے ایک پنجرے میں قید، تقریبا پانچ منٹ تک  عدالت سے خطاب کیا اور  پھر وہ بے ہوش ہوکر گرگئے اور ان کی موت ہوگئی۔ وہ اس دنیوی عدالت سے اخروی عدالت میں پہنچ گئے اور ان کے دشمنوں کے دل ٹھنڈے  ہوگئے۔ وہ جس طرح مظلوم ہوکر اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں  کہ امید ہے کہ وہ آخرت کی عدالت میں سرخرو رہیں گے اور ان کے دشمن ذلیل وخوار ہوں گے۔ اللہ تعالی مرحوم محمد مرسی کی مغفرت فرمائے!

 

اس طویل  چھ سالہ مدت میں، جو بات سب سے اہم رہی وہ یہ تھی کہ ہر طرح کی پریشانی جھیلنے کے باوجود بھی بطل جلیل ڈاکٹر محمد مرسی اپنے سیاہ رو دشمنوں سے ڈرا نہیں،  ان بد طینتوں کے  سامنے زیر نہیں ہوا اور ان ناپاکوں سے کسی طرح کا کوئی سودا نہیں کیا؛ بل کہ آخری دم تک اپنے موقف پر قائم رہ کر،  ان بدبختوں کو  بتا دیا کہ وہ حق وانصاف کی لڑائی آخری دم تک لڑتے رہیں گے۔

 

ایک سابق صدر کے ساتھ یہ ڈرامہ چلتا رہا؛ مگر انسانیت  کا راگ الاپنے والے، حقوق انسانیت کا درس دینے والے اور جمہوریت کے پاسبان خاموش تماشائی بنےبیٹھے  رہے۔ عرب برادر ممالک نے کبھی مفاہمت کی کوشش نہیں کی۔ کسی نے مصر کے ڈکٹیٹر سیسی کے خلاف ایک جملہ تک نہیں کہا؛ بلکہ اس کی مادی ومعنوی ہر طرح کی دست گیری کرتے رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان جمہوریت کے پاسبانوں کو "اسلام" اور "اسلام پسند افراد" بالکل پسند نہیں ہیں۔ اگر کوئی مسلمان کہیں منتخب ہوتا ہے؛ تو اس کو حکومت میں باقی رہنے کے لیے ایک لبرل مسلمان اور ان جمہوریت کے پاسبانوں کے مفادات کا ضامن اور کفیل ہونا ہوگا۔ اگر وہ حکمراں اسلام پسند ہے؛ تو یہ جمہوریت کے ٹھیکیدار  ان کو "شدت پسند" کا خطاب دیں گے، ان کے خلاف عوام اور فوجیوں کو بغاوت کے لیے اکسائیں گے اور بغاوت کرواکر ، ان کو   ڈاکٹر محمد مرسی بنادیا جائے گا۔***

 

No comments: