Saturday, December 7, 2019

حج: چند ضروری معلومات


حج: چند ضروری معلومات

 

بہ قلم: خورشید عالم داؤد قاسمی٭

Email: qasmikhursheed@yahoo.co.in

 

تمہید:

اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک حج ہے۔ حج زندگی میں ایک بار فرض ہے۔ حج ایک عبادت ہے؛ لہذا دوسری عبادات کی طرح حج کےلیے  بھی کچھ شرائط وارکان، فرائض وواجبات اور سنتیں ہیں۔ حج کے سفر پر جانے والوں کے لیے بہتر ہے کہ وہ اس کے ارکان وشرائط اور فرائض وواجبات وغیرہ کا علم رکھیں۔ ان چند ضروری معلومات کا علم رکھنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ حج کرنے والا آدمی دوران حج غلطی سے محفوظ رہے گا اور درست طریقے سے ارکان حج کی ادائیگی کرے گا۔ اگر دوران حج کوئی غلطی ہو بھی جائے؛ تو واقف ہونے کی صورت میں، وہ اس کے تلافی کی کوشش کرے گا۔ اس تحریر میں حج کی تعریف، حج کےشرائط، فرائض وواجبات ، سنن اور حج کے اقسام وغیرہ مختصرا بیان کیے جارہے ہیں۔

 

حج کی تعریف:

حج کا لغوی معنی "قصد وارادہ" ہے۔مسلمان حج کے موقع سےہر سال بیت اللہ شریف کا قصد وارادہ کرتا ہے؛ اسی لیے اس کو حج کہتے ہیں۔ حج  کی اصطلاحی تعریف یہ ہے کہ"حج شریعت کی اصطلاح میں، ایک خاص وقت میں، مخصوص شرائط کے ساتھ، کچھ خاص اعمال کو انجام دینے کے لیے مخصوص جگہ کا ارارہ کرنا ہے۔ (اس تعریف میں) مخصوص جگہ سے مراد بیت اللہ اور عرفہ ہے، مخصوص وقت سے مراد ایام حج ہیں، مخصوص اعمال سے مرادوقوف عرفہ،طواف اور سعی ہے"۔ (موسوعہ فقہیہ: 17/50)

 

حج کی فرضیت:

حج سن پانچ، یا چھ یا آٹھ یا نو ہجری میں فرض ہوا۔ حج کی فرضیت قرآن کریم، حدیث شریف اور اجماع امت سے ثابت ہے؛ اس لیے جو شخص اس کی فرضیت کا انکار کرے،گرچہ وہ مسلمانوں ہی کے درمیان کیوں نہ رہتاہو، مگر وہ کافر ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: "وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ" (آل عمران: 97) ترجمہ : "اور اللہ کے واسطے لوگوں کے ذمہ اس مکان کا حج کرنا ہے، یعنی اس شخص کے جو کہ طاقت رکھے وہاں تک کی سبیل کی۔ اور جو شخص منکر ہو، تو اللہ تعالی تمام جہاں والوں سے غنی ہیں"۔

 

حج کے فرض ہونے کے شرائط:

حج کے فرض ہونے کے لیے کچھ شرائط ہیں۔ اگر وہ شرائط ایک شخص میں پائے جائیں؛ تو اس شخص پر حج فرض ہوجائے گا۔ اب اس کی ادائیگی کے لیے اسے زندگی میں ایک بار حج کرنا ہوگا۔ اگر ان میں سے کوئی ایک شرط بھی نہ پائی جائے؛ تو حج اس شخص پر فرض نہیں ہوگا۔ حج کے فرض ہونے کے لیے جن شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، وہ درج ذیل ہیں۔

 

 (1) مسلمان ہونا؛ لہذا اگر کوئی آدمی مسلمان نہیں ہے؛ تو اس پر حج فرض نہیں ہے۔ (2) عاقل ہونا؛ اس لیے اگر کوئی شخص پاگل ہو؛ تو اس پر حج فرض نہیں ہوگا۔ (3) بالغ ہونا؛ اگر کوئی شخص نابالغ ہے؛ تو  اس پرحج فرض نہیں ہوگا۔ (4) آزاد ہونا؛ لہذا اگر کوئی شخص غلام ہے؛ تو اس پر حج فرض نہیں ہوگا۔ (5) اشہر حج (حج کے وقت ) کا ہونا۔ (6) استطاعت وقدرت (زاد راہ، توشہ اور سواری ) کا ہونا۔

 

ادائیگی حج کے واجب ہونے کی شرطیں:

مذکورہ  بالا شرائط کے پائے جانے کے بعد، حج آدمی پر فرض ہوجاتا ہے۔ مگر حج کا ادائیگی کے لیے مندرجہ ذیل شرطوں کا بھی پایا جانا ضروری ہے۔ جب تک یہ شرطیں نہیں پائی جاتیں؛ تو اس وقت تک حج کا ادا کرنا اس شخص پر ضروری نہیں ہے۔ ہاں، جب یہ شرائط پائی جائیں؛ تو فورا حج ادا کیا جانا چاہیے۔ ان شرائط کے پائے جانے کا امکان اگر معدوم لگ رہا ہے؛ تو اس کو چاہیے کہ "حج بدل" کروائے ۔ اگر حج بدل بھی نہیں  کراسکا؛ تو پھر اپنے وصیت نامہ میں یہ لکھ دے کہ وارثین ان کی طرف سے حج ادا کردیں یا کروادیں۔ ادائیگی حج کے واجب ہونے کی پانچ  شرطیں یہ ہیں:

 

1: تندرست ہونا۔ 2: سفر حج کے لیے کوئی مانع حسی  کا نہ ہونا (جیسے: قید خانہ میں محبوس ہے یا پھر حکومت کی طرف سے کوئی ایسا قانون  نافذ ہے جس کی وجہ سے سفر پر جانا ممنوع ہے)۔ 3: مکہ مکرمہ جانے کےلیے راستہ کا پر امن ہونا۔ 4: خاتون کا مدت عدت میں نہ ہونا۔ 5: خاتون کے لیےشوہر یا کسی مسلمان، عاقل اوربالغ مَحْرَم  کا ساتھ ہونا۔

 

حج کے فرائض:

حج میں چار چیزیں فرض ہیں۔ اگر کسی نے ان میں سے ایک فرض کو بھی جان بوجھ کر چھوڑ دیا، یا پھر بھول کر ہی چھٹ جائے؛ تو اس شخص کا حج ادا نہیں ہوگا۔  وہ چار فرائض یہ ہیں: (1) احرام (حج اور عمرہ کی نیت کرکے ایک خاص قسم کا لباس پہننا، جس کے بعد کچھ حلال اور جائز کام بھی حرام اور ناجائز ہوجاتے ہیں۔)، (2) وقوف عرفہ: یعنی احرام کی حالت میں، نویں ذوالحجہ کے زوال کے وقت سے دسویں ذوالحجہ کو طلوع  فجر سے پہلے تک کچھ دیر کے لیےمیدان عرفات میں ٹھہرنا، چاہے وہ ایک ہی لحظہ کے لیے کیوں نہ ہوں اور (3) طواف زیارت۔

 

حج کے واجبات:

حج کے واجبات پانچ ہیں۔ ان  واجبات میں سے اگر کوئی ایک بھی چھٹ گیا؛ تودم لازم ہوگا۔ وہ واجبات یہ ہیں: (1) صفا اور مروہ کے درمیان سعی، (2) وقوف مزدلفہ، (3)  رمی جمار، (4) (سر کا) بال مونڈانا یا ترشوانا اور  (5) طواف صدر (اس طواف کو "طواف وداع"، طواف آخر عہد بالبیت" اور "طواف واجب" بھی کہا جاتا ہے۔  یہ گویا رخصت ہونے والے کی بیت اللہ شریف سے وداعی ملاقات اور نیاز ہے۔)۔ (قاموس الفقہ 3/198)

 

حج کے سنن:

طواف قدوم (اسے طواف تحیّۃ اور طواف لقاء بھی کہا جاتا ہے) ، طواف قدوم یا طواف زیارت میں رمل۔  سعی میں میلین اخضرین کے درمیان تیز چلنا، ایّام نحر، 10/11/12 ذوالحجّہ کو شب منی سے عرفات جانا اور دسویں تاریخ کی صبح طلوع آفتاب سے پہلےمزدلفہ سے منی کےلیے نکلنا۔ مزدلفہ میں شب گزارنا۔ تینوں جمرات پر بالترتیب دعاء کرنا۔  (قاموس الفقہ 3/200)

 

حج کی قسمیں:

حج کی تین قسمیں ہیں۔ (1) حجِّ قِران، (2) حجِّ تَمتُّع اور (3) حجِّ اِفراد۔ ان کی تفصیل یہ ہے:

حجِّ قِران: میقات (اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں سےمکہ جانے والوں کا بغیر احرام کے آگے بڑھنا جائز نہیں۔) سے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھے۔ مکہ پہنچ کر پہلے عمرہ کے افعال ادا کیے جائیں؛ لیکن ابھی حلق یا قصر نہ کروایا جائے؛ بل کہ اسی احرام میں رہے۔  پھر اسی احرام کے ساتھ حج کے ارکان مکمل کیے جائیں۔ دس ذو الحجہ کو رمی، قربانی اور حلق کرنے کے بعد،احرام کھول دیا جائے۔  خلاصہ یہ ہے کہ حج قران میں ایک ہی سفر میں اور ایک ہی احرام میں عمرہ اور حج دونوں ادا کیے جائیں۔ حج قران کرنے والے پر قربانی واجب ہے۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک یہی حج قران افضل ہے۔

 

حجِّ تَمتُّع: میقات سے عمرہ کا احرام باندھا جائے۔ مکہ پہنچ کر، عمرہ ادا کیا جائے۔ عمرہ ادا کرنے کے بعد، احرام کھول لے اور حلال ہوجائے۔ پھر آٹھ ذو الحجہ کو حج کا احرام باندھے ۔ پھر دس ذو الحجہ کو رمی، قربانی اور حلق کے بعد، احرام کھول دیا جائے۔ اس صورت کو حجِّ تَمتُّع کہتے ہیں۔ اس صورت میں بھی حاجی پر قربانی کرنی واجب ہے۔  خلاصہ یہ ہے کہ ایک سفر میں دو احرام سے عمرہ اور حج ادا کیے جائیں۔

 

حجِّ اِفراد: میقات سے صرف حج کا احرام باندھا جائے۔  پھر دس ذو الحجہ کو رمی کرنے کے بعد، احرام کھول لیا جائے۔ حج کی تکمیل تک، عمرہ نہ کیا جائے۔ پھر حج سے مکمل فراغت کے بعد، اگر عمرہ کرنا چاہے؛ تو پھر احرام باندھ کر، عمرہ کیا جاسکتا ہے۔ اس حج کو  حجِّ اِفراد کہا جاتا ہے۔ اس صورت میں حاجی پر قربانی واجب نہیں ہے۔

 

ان تینوں قسموں میں سے حاجی جس قسم کو بھی اختیار کرے، اس کا حج مکمل ادا ہوجائے گا۔ اس کسی طرح کا کوئی نقص نہیں ہے۔ لیکن حنفی مذہب کے لوگوں کوحجِّ قِران کرنے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوں کہ امام ابوحنیفہ (رحمہ اللہ)  کے نزدیک حج قران ہی افضل ہے۔

 

حج کی ادائیگی میں تاخیر مت کیجیے:

ایک آدمی پر جب حج فرض ہوجائے اور اس کی ادائیگی کے لیےسارے اسباب بھی مہیا ہوجائیں؛ تو اس شخص کو بلا کسی تاخیر کے حج کرلینا چاہیے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: "مَنْ أَرَادَ الْحَجَّ فَلْيَتَعَجَّلْ". (سنن أبي داؤد: 1732) ترجمہ: "جس نے حج کا ارادہ کیا؛ اسے چاہیے کہ جلدی کرے "۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ایک دوسری روایت یوں نقل کرتے ہیں: "تَعَجَّلُوا إِلَى الْحَجِّ - يَعْنِي: الْفَرِيضَةَ - فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَا يَدْرِي مَا يَعْرِضُ لَهُ." (مسند احمد، حدیث: 2867) ترجمہ : "حج –یعنی فرض حج–  میں جلدی کرو ؛ کیوں کہ تم میں کوئی یہ نہیں جانتا کہ اسے کیا عذر پیش آنے والاہے"۔

 

حج کا وجوب فوری طور پر ہے یا تاخیر کے ساتھ ہے؟ اس حوالے سے فقہاء کرام کی آراء مختلف ہیں۔ مگر امام ابوحنیفہ (رحمہ اللہ) کے اصح  قول کے مطابق حج فورا واجب ہوجاتا ہے۔ موسوعہ فقہیہ میں ہے: "شرائط کے پائے جانے کی صورت میں،وجوب حج کے بارے میں فقہاء کا اختلاف ہے کہ وہ فوری طور پر واجب ہے یا تاخیر کے ساتھ؟ اصح روایت کے مطابق امام ابوحنیفہ، امام ابو یوسف اور راجح قول کے مطابق امام مالک اور امام احمد کا مذہب یہ ہے کہ وہ فوری طور پر واجب ہوتا ہے۔ اگر کسی شخص پر کسی سال حج فرض ہوگیااور اس نے اسے موخر کردیا؛ تو وہ گنہ گار ہوگا۔ البتہ جب اسے اس کے بعد ادا کرے گا؛ تو وہ حج ادا ہوگا، قضا نہیں اور گناہ ختم ہوجائےگا"۔ (موسوعہ فقہیہ: 17/51)

 

اللہ تعالی حج مبرور نصیب فرمائے!

حضرت ابو ہریرۃ –رضی اللہ عنہ– فرماتے ہیں کہ رسول اللہ – صلی اللہ علیہ وسلم – نے ارشاد فرمایا: "العُمْرَةُ إِلَى العُمْرَةِ كَفَّارَةٌ لِمَا بَيْنَهُمَا، وَالحَجُّ المَبْرُورُ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلَّا الجَنَّةُ." (صحیح بخاری: 1773) ترجمہ: "ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک ان( گناہوں)کے لیے کفارہ  ہے،جو ان دونوں کے درمیان ہوئے ہوں، اور حج مبرور کا بدلہ صرف جنت ہے"۔ اس حدیث شریف میں دو باتیں بتائی گئی ہیں۔ ایک تو یہ کہ دو عمروں کے درمیان جو گناہِ صغیرہ سرزد ہوئے ہیں، وہ معاف ہوجائیں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ حج مبرور کا بدلہ صرف جنت ہے۔ رہا یہ کہ حج مبرور کیا ہے؟ تو حج مبرور اس حج کو کہتے ہیں جس کے دوران کوئی گناہ کا ارتکاب نہیں ہوا ہو۔ کچھ حضرات کی رائے یہ بھی ہےکہ "حج مبرور حج مقبول ہے"۔ بعض لوگوں نے کہا کہ جس میں کوئی ریا اور شہرت مقصود نہ ہو، کوئی فسق و فجور نہ ہو ۔ حضرت حسن بصری نے فرمایا : حج مبرور یہ کہ(آدمی) دنیا سے بے رغبت ہوجائے اور آخرت کے سلسلہ میں دل چسپی دکھا ئے ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو حج مبرور نصیب فرمائے! آمین! ٭٭٭

 

٭ ہیڈ: اسلامک ڈپارٹمنٹ، مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ

 

No comments: